پاکستان کا نظریاتی اساس
سوال: کسی نظریے کے ماخذ کیا ہوتے ہیں؟
نظریے کے معنی اور مفہوم
نظریہ فرانسیسی لفظ آئیڈیولوجی کا ترجمہ ہے۔یہ دو اجزاء”آئیڈیا“ اور ”لوجی“ پر مشتمل ہے۔نظریے کا مفہوم ہے اندازِ فکر اور تصور حیات ۔ نظریہ عام طور پر اُس تہذیبی یا معاشرتی لائحہ عمل کو کہتے ہیں جو کسی قوم کا مشترکہ نصب العین بن جائے۔ نظریے کا لفظ زیادہ وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے انسانی زندگی کا ایسا نظام وجود میں آتا ہے جس میں اعتقادات، اور زندگی کے مقاصد شامل ہوں۔نظریہ کسی بھی معاشرہ کو ایسی شکل میں لے آتاہے جس میں افراد کے اعتقادات، رسوم و رواج اور مذہبی معاملات مشترکہ ہوتے ہیں۔ دیگر معاشروں کے مقابلے میں اسلامی معاشرہ بالکل منفرد ہے۔ کیونکہ یہ الٰہامی اصول اور نظریات پرقائم ہوتا ہے۔جو قرآن مجید اور سنت نبوی سے حاصل کیے گئے ہیں۔
نظریے کا منبع اور ماخذ
کسی بھی نظریے کی اثر انگیزی کا انحصار افراد کے خلوص، لگن، وفاداری اور وابستگی پر ہوتا ہے۔ اسلامی نظریہ افراد کے ذہنوں پر فطری طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے نتیجتاً اسلام کے ابدی اصولوں پر ان کا ایمان پختہ ہوجاتا ہے۔ اسلامی نظریے کا سرچشمہ قرآن مجید اور سنت نبوی ہے۔
قرآن مجید
قرآن مجید کے احکام اسلام کی بنیادہیں۔ان سے معاشی اور معاشرتی قوانین کے سلسلے میں مفصّل و مکمل رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ جس کی بدولت انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی خوشگوار، پرُامن اور بامقصد ہوجاتی ہے۔
سنّت نبوی
ہمارے پیارے نبی نے اسلامی احکامات کو اپنے اقوال و افعال سے واضح فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کی مفصّل تشریح سنّت نبوی سے ملتی ہے جو اسلامی اصول و قوانین کا سرچشمہ ہے۔سنّت ایک عربی اصطلاح ہے۔ اس کے لفظی معنی ہیں ”ایسا راستہ جس کی پیروی کی جائے۔“ قرآن مجید اسلامی اصول کے بنیادی خدوخال بیان کرتا ہے۔لیکن ان کی تشریح رسول اکرم کی احادیث سے ملتی ہے۔اسلام کے بنیادی ارکان یعنی نماز، روزہ ،زکوٰة، حج اور جہاد کی تفصیلات رسول اکرم نے بیان فرمائی ہیں۔
رسوم و رواج
مختلف علاقوں میں پائے جانے والے ایسے رسوم و رواج اورایسی اقدار جو اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہوںمسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ انہیں اپنے مخصوص خطے یا علاقے میں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں میلے، اجتماعات اور دیگر تقریبات شامل ہیں۔
سوال: کسی نظریے کے ماخذ کیا ہوتے ہیں؟
نظریے کے معنی اور مفہوم
نظریہ فرانسیسی لفظ آئیڈیولوجی کا ترجمہ ہے۔یہ دو اجزاء”آئیڈیا“ اور ”لوجی“ پر مشتمل ہے۔نظریے کا مفہوم ہے اندازِ فکر اور تصور حیات ۔ نظریہ عام طور پر اُس تہذیبی یا معاشرتی لائحہ عمل کو کہتے ہیں جو کسی قوم کا مشترکہ نصب العین بن جائے۔ نظریے کا لفظ زیادہ وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے انسانی زندگی کا ایسا نظام وجود میں آتا ہے جس میں اعتقادات، اور زندگی کے مقاصد شامل ہوں۔نظریہ کسی بھی معاشرہ کو ایسی شکل میں لے آتاہے جس میں افراد کے اعتقادات، رسوم و رواج اور مذہبی معاملات مشترکہ ہوتے ہیں۔ دیگر معاشروں کے مقابلے میں اسلامی معاشرہ بالکل منفرد ہے۔ کیونکہ یہ الٰہامی اصول اور نظریات پرقائم ہوتا ہے۔جو قرآن مجید اور سنت نبوی سے حاصل کیے گئے ہیں۔
نظریے کا منبع اور ماخذ
کسی بھی نظریے کی اثر انگیزی کا انحصار افراد کے خلوص، لگن، وفاداری اور وابستگی پر ہوتا ہے۔ اسلامی نظریہ افراد کے ذہنوں پر فطری طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے نتیجتاً اسلام کے ابدی اصولوں پر ان کا ایمان پختہ ہوجاتا ہے۔ اسلامی نظریے کا سرچشمہ قرآن مجید اور سنت نبوی ہے۔
قرآن مجید
قرآن مجید کے احکام اسلام کی بنیادہیں۔ان سے معاشی اور معاشرتی قوانین کے سلسلے میں مفصّل و مکمل رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ جس کی بدولت انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی خوشگوار، پرُامن اور بامقصد ہوجاتی ہے۔
سنّت نبوی
ہمارے پیارے نبی نے اسلامی احکامات کو اپنے اقوال و افعال سے واضح فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کی مفصّل تشریح سنّت نبوی سے ملتی ہے جو اسلامی اصول و قوانین کا سرچشمہ ہے۔سنّت ایک عربی اصطلاح ہے۔ اس کے لفظی معنی ہیں ”ایسا راستہ جس کی پیروی کی جائے۔“ قرآن مجید اسلامی اصول کے بنیادی خدوخال بیان کرتا ہے۔لیکن ان کی تشریح رسول اکرم کی احادیث سے ملتی ہے۔اسلام کے بنیادی ارکان یعنی نماز، روزہ ،زکوٰة، حج اور جہاد کی تفصیلات رسول اکرم نے بیان فرمائی ہیں۔
رسوم و رواج
مختلف علاقوں میں پائے جانے والے ایسے رسوم و رواج اورایسی اقدار جو اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہوںمسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ انہیں اپنے مخصوص خطے یا علاقے میں اختیار کرسکتے ہیں۔ ان میں میلے، اجتماعات اور دیگر تقریبات شامل ہیں۔
سوال ۔ کسی قوم کے لئے” نظریہ “ کیوں اہم ہوتا ہے؟
نظریے کی اہمیت
نظریے کی اہمیت مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر واضح ہوتی ہے۔
خیالات کا عکاس
نظریہ افکار و خیالات کا عکاس ہوتا ہے۔یہ معاشرے میں رہن سہن، سوچ، طرز فکر اور باہمی تعلقات کے اصول متعین کرتا ہے۔
قومی اتحاد کا سرچشمہ
نظریہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا ہے اور اتحاد کا سرچشمہ بنتا ہے۔
رضائے الٰہی کا حصول
اسلامی نظریہ انسانوں کو فلاح و بہبود کے لیے جدوجہد پر ابھارتا ہے جس کے نتیجے میںاللہ تعالی راضی ہوتا ہے۔ اور یہ جدوجہد اقوام کے لیے زبردست قوت محرکہ کا کام دیتی ہے۔
درست فیصلے میں مدد
قیادت کے انتخاب کے لئے نظریہ ایک خاص طرح کی بصیرت پیدا کردیتا ہے جسسے درست فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ثقافت کو برقرار رکھنے میں معاون
نظریے سے آزادی، ثقافت اور رسوم رواج برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسلامی نظریہ اُن اسلامی اقدار کا عکاس ہے جن کی رسول اکرم نے تعلیم دی اور عمل کرکے دکھایا۔
نظریے کی اہمیت
نظریے کی اہمیت مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر واضح ہوتی ہے۔
خیالات کا عکاس
نظریہ افکار و خیالات کا عکاس ہوتا ہے۔یہ معاشرے میں رہن سہن، سوچ، طرز فکر اور باہمی تعلقات کے اصول متعین کرتا ہے۔
قومی اتحاد کا سرچشمہ
نظریہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا ہے اور اتحاد کا سرچشمہ بنتا ہے۔
رضائے الٰہی کا حصول
اسلامی نظریہ انسانوں کو فلاح و بہبود کے لیے جدوجہد پر ابھارتا ہے جس کے نتیجے میںاللہ تعالی راضی ہوتا ہے۔ اور یہ جدوجہد اقوام کے لیے زبردست قوت محرکہ کا کام دیتی ہے۔
درست فیصلے میں مدد
قیادت کے انتخاب کے لئے نظریہ ایک خاص طرح کی بصیرت پیدا کردیتا ہے جسسے درست فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ثقافت کو برقرار رکھنے میں معاون
نظریے سے آزادی، ثقافت اور رسوم رواج برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسلامی نظریہ اُن اسلامی اقدار کا عکاس ہے جن کی رسول اکرم نے تعلیم دی اور عمل کرکے دکھایا۔
سوال ۔ اسلام کے جمہوری اصول بیان کریں۔
اسلام میں جمہوریت کے اصول
اسلام میں جمہوریت کا تصور دنیوی اصولوں سے مختلف ہے۔ اسلامی معاشرہ اس بات پر کامل ایمان رکھتا ہے کہ اس کائنات میں اقتداراعلیٰ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس پوری کائنات کا حاکم اعلیٰ ہے۔عوام کے نمائندے صرف ان حدود کے اندر اختیارات استعمال کرسکتے ہیںجو اسلام نے انہیں فراہم کردی ہیں۔ تاہم عوام کو اس امر کی مکمل آزادی ہوتی ہے کہ وہ ریاست کے معاملات چلانے کے لئے اللہ سے ڈرنے والے صالح، متقی اور پرہیزگار افراد کو منتخب کریں۔ اسلامی معاشرے میں حکمرانوں پر عوام کو اس وقت تک اعتماد رہتا ہے جب تک کہ وہ اسلامی قوانین کی پیروی کریں۔ اسی سے اسلام میں جمہوریت کا تصور واضح ہوتا ہے۔ اسلام میں جمہوریت کے اصول درج ذیل ہیں۔
عدل و انصاف
عدل کے لفظی معنی ہیں کہ صحیح چیز کو صحیح جگہ پر رکھنا۔ یہ قانون الٰہی کو اصل اور بنیاد ہے۔زندگی کا کوئی بھی پہلو عدل کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ عدل و انصاف ہی ہے جس کی بناءپر کوئی معاشرہ پرامن اور خوشحال ہوسکتا ہے۔صرف عادلانہ نظام میں ہی ا فرد کے کردار کی تعمیر و تشکیل اور نتیجتاًاجتماعی بہتری ممکن ہے۔قرآن حکیم عدل قائم کرنے پر زور دیتا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
”عدل قائم کرو۔ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔“
ایک ایسا معاشرہ جس میں عدل کو فوقیت اور برتری حاصل ہو اس میں ہمیشہ اتحاد و اتفاق، محبت ، خلوص اور امن پایا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے۔
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔عدل قائم کرواللہ کی رضا کے لئے شہادت کو قبول کرو خواہ یہ خود تمھارے خلاف ہو، خواہ وہ امیر ہو یا غریب اور لوگوں سے نفرت تمہیں انصاف کرنے سے نہ روکے۔“
اسلام کے عدالتی نظام میں افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
مساوات
اسلام انسانوں کے درمیان مساوات کا علم بردار ہے۔ اسلام رنگ و نسل، زبان،و ثقافت اور امارت و غربت سمیت تمام امتیازات و تفریق کی نفی کرتا ہے۔ رسول اکرم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا۔
” تمام انسان حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں ۔کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔“
اسلام میں فوقیت اور برتری کی بنیاد تقویٰ ہے نہ کہ دولت یا اختیار و اقتدار ۔ اسلام میں لوگوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔کوئی کسی سے برتر نہیں سوائے ان کے جو تقویٰ یعنی پرہیزگاری اور خوف ِخدا اختیار کرتے ہیں۔قانون کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ تمام انسانوں کو یکساں قانونی تحفظ حاصل ہے اور انہیں بہتر سماجی مقام حاصل کرنے کے یکساں اور مساوی مواقع حاصل ہیں۔
اخوت
اخوت کے معنی بھائی چارے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ”کل مسلم اخوة“ یعنی تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اخوت کا اصول اسلامی معاشرے کا ایک اہم پہلو ہے۔ بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارے کا احساس ، محبت، باہمی تعاون اور قربانی کے جذبات کو ابھارتا اور فروغ دیتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی نے فرمایا۔
”ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھا ئی ہے اور اپنے بھائی کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ نہیں بنتا ہے۔“
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا۔
”پس میں کینہ نہ رکھو۔حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرواور سب بھائی بھائی بن جاو۔“
مختصر یہ کہ ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے کسی قسم کی کدورت نہیں رکھنی چاہئے اور نہ ہی حسد کرنا چاہئے۔مسلمان تو مسلمان ہیں اسلام تو غیر مسلموں کے خلاف بھی سازش کرنے اور برُے خیالات رکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے۔
رواداری
رواداری اور برداشت اسلام کی نظر میں نہایت عظیم نیکیاں ہیں۔ جو انسان کو مشکل و دشواری سے بچاتی ہیں اور دوسروں کے لیے پیار و محبت کا ذریعہ بنتی ہیں۔لوگوں کے درمیان سماجی تعلقات قائم کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے۔ باہمی جھگڑوں سے بچنے کے لئے رواداری بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی وجہ سے اخوت اور امن کا ماحول فروغ پاتا ہے اور انسانی رشتوں میں استحکام آتا ہے ۔ رسول اکرم نے اپنے قول و فعل سے رواداری کا درس دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا ہے۔
”دین میں کوئی جبر نہیں۔“
یہ رواداری کا ایک سنہری اصول ہے۔ اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے جائز حقوق کا احترام کیا جاتا ہے اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے جو اپنے خیالات اور نظریات کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کے جذبات مجروح کرتے ہیں۔
سوال ۔ نظریے میں قومی کردار کا کیا مقام ہے؟
نظریہ او ر قومی کردار
کسی فرد کی عادات واطوار اور طرز زندگی کے مجموعے کو عام طور پر کردار سمجھا جاتا ہے اور اس شخص کا نظریہ اسکے کردار پر اثرانداز ہوتا ہے۔ نظریے کی روشنی میں قومی کردار درج ذیل اخلاقی اقدار سے تشکیل پاتا ہے۔
نظریے پر پختہ یقین
جب تک کوئی شخص اپنے قومی نظریے پر پختہ یقین نہیں رکھتا ہے تب تک اس کا کردار قومی جذبے سے عاری رہتا ہے اور اس کے اعمال و افعال قومی مفاد میںنہیں ہوتے۔ اس لئے ہمیں اسلامی اقدار کی روشنی میں اپنا کردار بنانا چاہئے۔ یہ نظریہ�¿ پاکستان میں عوام کا پختہ یقین تھا۔ جس کی وجہ سے انھوں نے ایک نظریاتی مملکت پاکستان کے حصول کے لئے اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اس لئے ہمارا کردار ایک ایسے مسلمان کا عکاس ہونا چاہئے جو اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرتا ہو۔
سپردگی یا وقف کردینا
اس کے معنی ہے کہ اپنے آپ کو کسی مقصد کے حصول کے لئے گہرے جذبے اور احساسِ فرض شناسی کے ساتھ مخصوص کردینا۔ جو شخص قومی نظریے سے مکمل ہم آہنگ ہوکر کام کرتا ہے وہی صحیح معنوں میں قومی معاشرے کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتا ہے۔ بحیثیت ایک پاکستانی ہمارا کردار اسلامی طرز زندگی کے مطابق ہونا چاہئے۔
ایمانداری اور دیانتداری
ایمانداری اور دیانتداری ایسی صفت ہے جس کا تمام معاشروں میں اعتراف کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو نیک زندگی گزارنا چاہئے اور اپنے قول و فعل سے ایمانداری اور راست بازی کی عکاسی کرنی چاہئے۔ تجارت ہو یا زندگی کے دوسرے میدان، لوگوں سے معاملات کرتے وقت ایمانداری نظر آنی چاہئے۔ اسلام نے بڑے سخت الفاظ میں ایمانداری پر زور دیا ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں زندگی کے تمام شعبوں میں عوام کی ایمانداری اور دیانتداری نمایاں تھی جس نے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد کی۔
حبّ الوطنی
کسی بھی شخص کی اپنے وطن سے محبت اور اس کے لئے قربانی کا اندرونی جذبہ اور خلوص حبّ الوطنی کہلاتا ہے۔کسی آزمائش کے وقت یا اگر آزادی کو خطرہ ہو تو اس وقت لوگ اپنے قومی کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بھارت کے خلاف 1965ءکی جنگ کے دوران پاکستانیوں نے حبّ الوطنی کے جذبے کا زبردست مظاہرہ کیا تھا۔ جو دراصل ان کے قومی کردار کا مظہر تھا۔
محنت اور مشقت
قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب اس کے افراد سخت محنت و مشقت کرتے ہیں۔ اس کے لئے احساسِ فرض شناسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام اس لئے خوشحال اور ترقی یافتہ بن سکی ہیں کیونکہ ان کے عوام میں شدید احساس فرض شناسی و ذمہ داری پایا جاتا ہے۔کسی بھی ملک کے وسائل اس کے افراد کی سخت محنت کی بدولت ہی ترقی اور خوشحالی کا روپ دھارتے ہیں اور نشونما پاتے ہیں۔
قومی مفاد
کسی بھی شخص کے ذاتی کردار کو لازماًقومی مفاد کی برتری اور فوقیت کی عکاسی کرنا چاہئے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی رویہ سے ایمانداری، دیانتداری اور سپردگی کی صفات اور خوبیاں پھلتی اور پھولتی ہیں ۔صرف وہی قومیں زندہ و پائندہ رہتی ہیں جن کے افراد اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔
نظریہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کے ارشادات
نظریہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کے خیالات اور تصورات بالکل صاف اور واضح تھے۔ اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کے دوران آپ نے نظریہ پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات اور تصورات کی اس طرح وضاحت کی۔
”پاکستان کے لئے ہمارا مطالبہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلامی اصولوں پر مبنی نظام پر عمل درآمد کرسکیں۔“
اجلاس میں قائداعظم نے اسلامی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی اس طرح وضاحت کی۔
”ہندومت اور اسلام صرف دو مذاہب نہیں بلکہ یہ دو معاشرتی نظام ہیں اور یہ سوچنا کہ ہندو اور مسلم مل کر ایک مشترکہ قوم بن سکتے ہیں صرف خواب ہوگا۔ میں کھل کر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دونوں اقوام دو مختلف تہذیبوں سے وابستہ ہیں اور ان دونوں تہذیبوں کی بنیادیں ان فلسفوں پر رکھی گئی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔“
جنوری 1941ءمیں قائداعظم نے مسلم قومیت کے علیحدہ تشخص کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔
”ہندوستان کبھی بھی ایک ملک یا ایک قوم نہیں رہا۔ برصغیر کا معاملہ بین الاقوامی ہے۔تہذیب، ثقافت، معیشت اور معاشرتی اقدار کے اختلافات نظریاتی نوعیت کے ہیں۔“
قائداعظم کے مندرجہ ذیل الفاظ نظریہ پاکستان کی پوری وضاحت کرتے ہیں۔
”پاکستان اُسی روز وجود میں آگیا تھا جس روز ہندوستان میں پہلا غیر مسلم تبدیل ہوکر مسلمان ہوگیا تھا۔“
نظریے پاکستان کے بارے میں علامہ اقبال کابیان
عظیم مفکر، فلسفی اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کے لئے آواز اٹھائی ۔الہٰ آباد میںدسمبر 1930ء میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں آپ نے صدارتی خطبہ دیا۔ جو عام طور سے خطبہ الہٰ آباد کے نام سے معروف ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کے تصور کی وضاحت کی۔ علامہ اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ برصغیر میں ایسے لوگ آباد ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیںاور مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ انھوں نے فرمایا۔
”ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک برصغیر ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف زبانے بولنے والے لوگ آباد ہیں۔ مسلمان قوم کا اپنا جداگانہ مذہب اور تہذیبی شناخت ہے۔ تمام مہذب اقوام کو مسلمانوں کے دینی اصولوں اور ثقافتی اور معاشرتی اقدار کا احترام کرنا چاہئے۔“
انہوں نے مزید فرمایا۔
”مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ پنجاب، شمالی مغربی سرحدی صوبہ سندھ اور بلوچستان ضم ہوکر ایک ریاست بنائیں گے۔مضبوط اور مربوط شمالی مغربی مسلم ریاست کا قیام کم از کم شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمانوںکی آخری منزل ہے۔“
علامہ اقبال کا یہ خطبہ تحریک پاکستان میں ایک سنگ ِ میل ثابت ہوا۔
نظریے کے ارکان
نظریے کے بنیادی ارکا ن حسب ذیل ہیں۔
مشترکہ مذہب
مذہب اقوام عالم کے لئے اتحادی قوت ہے۔ تمام اقوام عالم اپنے مذاہب کی بنیاد پر شناخت کی جاتی ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے سے جدا ہیں کہ ان کے عقائد مختلف ہیں۔
مشترکہ ثقافت
عام طور سے ایسے افراد جن کی ثقافت مشترکہ ہوتی ہے۔ ان کا طرزِ زندگی بھی یکساں ہوتا ہے اور یہ لوگ بالعموم اپنے رسم ورواج پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
مشترکہ مقصد
جب لوگوں کا مقصد مشترکہ ہوتا ہے تو وہ متحدبھی ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کا حصول جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا مشترکہ مقصد تھا۔ اس نے انھیں نظریے پاکستان پر باہم متحد کردیا تھا۔
پرخلوص وابستگی اور عہدوپیمان
کسی اعلیٰ مقصدکے ساتھ افراد کی پرخلوص وابستگی سے نظریہ کو تحریک ملتی ہے اور اس کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے آزادی کے حصول اور مسلم ریاست کے قیام کے مشترکہ مقصد کے لئے خود کو وقف کردیا تھا اور اس مقصد کے لئے انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔
Comments :
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.